Sunday 5 August 2012

جدید انتخابی فہرستیں یا نئی مصیبت ؟؟؟


اطلاعا ت ہیں کہ الیکشن کمیشن کے عملے نے سپریم 
کورٹ کے دباؤ پر جلد بازی میں انتخابی فہرستوں کو اس
 طرح مکمل کیا کہ شناختی کارڈ پر جس کا جہاں کا مستقل پتہ درج تھا، وہیں خود بخود اس کا ووٹ درج کر دیا گیا۔یوں سمجھیے کہ آپ کا مستقل پتہ لیہ ، بھکر یا پھر سندھ ،بلوچستان کے کسی دور دراز علاقے کا ہے مگر آپ کئی سالوں سے اسلام آباد ،کوئٹہ ،کراچی یا پھر پشاور میں مقیم ہیں اور یہی ووٹ کاسٹ کرنا چاہتے ہیں تو اب شاید ایسا ممکن نہ ہو،کیونکہ اچانک آپ کو پتہ چلے گا کہ آپ کا ووٹ تو آپ کے آبائی علاقے میں درج ہو گیا ہے۔اور اگر آپ کی بیگم صاحبہ مقامی ہیں تو ان کا ووٹ یہی درج ہوا ہوگا۔یوں جلد بازی کے باعث مکمل کی گئی انتخابی فہرستیں اگلے انتخابات کے موقع پر عوام کے لیے ایک بڑی مصبیت بننے والی ہیں۔دنیا بھر میں ووٹر کی سہولت کو دیکھتے ہوئے اس کی رہائش کے قریب ترین انتخابی حلقے میں ووٹ کا اندراج کیا جاتا ہے تاکہ ووٹر کو کم سے کم زحمت ہو اور وہ آسانی کے ساتھ اپنا فرض ادا کر سکے ۔مگر وطن عزیز میں ہر معاملے کی طرح یہاں بھی گنگا الٹی بہہ رہی ہے ۔سادہ لوح چیف الیکشن کمیشنر کو بھی عیار بیوروکریسی نے رٹا رٹایا سبق پڑھا دیا ہے اور وہ اول دن سے ہی وہی سرکاری بولی بولنے لگ گئے ہیں جو ان کے پیش رو بولتے رہے ۔اس مسئلے کا ایک سیدھا سادہ حل تو یہ ہے کہ فوری طور پر گھر گھر تصدیق کا نامکمل عمل دوبارہ سے شروع کیا جائے اور عوام کی سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے ووٹوں کا اندراج یقینی بنایا جائے۔اگر چہ الیکشن کمیشن نے اپنے تہیں یہ معرکہ بھی سر کر لیا ہے اور اب انتخابی فہرستیں یونین کونسل سطح پر تصدیق کے لیے آویزاں کی جارہی ہیں۔ مگر انتخابی ڈرامے سے تنگ اور روٹی روزی کے چکر میں مصروف عوام کو کیا پڑی کے وہ اس قسم کے جھنبیلوں میں پڑیں خصوصا ایسے میں جب انتخابی راستے سے امید کا کوئی دیا بھی نظر نہیں آرہا۔
دوسرا حل ذرا انقلابی نوعیت کا ہے مگرانتخابی فہرستوں کی خامیوں سمیت بہت سے دیگر مسائل کے لیے بھی نسخہ کیمیا کی حثیت رکھتا ہے۔وہ یہ کہ موجودہ انتخابی نظام کو لات مار کر ملک میں متناسب نمائندگی کا نظام رائج کیا جائے۔ حلقے بندیاں ختم کر دی جائیں اور پورے ملک کو ایک ہی حلقہ ڈکلئیر کر دیا جائے۔لوگ انفرادی طور پر کسی امید وار کے بجائے پارٹی اور اسکے منشور کو ووٹ دیں۔جیسا کہ اس سے ملتا جلتا نظام فرانس اور سوئیزر لینڈ سمیت دنیا کے تقریبا 58ممالک میں رائج ہے۔ اس کا پہلا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ ملک کے کسی بھی کونے میں ہوں،اپنی پسند کی جماعت کو ووٹ دیے سکیں گے ،اس کے لیے آپ کو کرایہ خرچ کر کے اپنے آبائی علاقے کا سفر کرنے کو نوبت پیش نہیں آ ئے گی۔دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ہر شخص جب وہ اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچے گا تو مناسب تصدیق کے ساتھ اس کا ووٹ خود بخود سسٹم میں درج ہو جائیگا۔نہ گھر گھر تصدیق کی مشق لاحاصل کرنا پڑے اور نہ ہی اس کے لیے کوئی لمبا چوڑا عملہ درکار ہوگا۔انتخابی نظام کو اگر کمپیوٹرائزڈ کردیا جائے اور بیلٹنگ باکس کی جگہ خود کار مشینیں (الیکٹرونک ووٹنگ مشین) نصب کردی جائیں تو پورے نظام میںایک انقلابی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔نادرا کی مدد سے ایسا نظام آسانی سے بنایا جاسکتا ہے جس میں جب کوئی شخص ملک کے کسی بھی کونے سے جب ایک دفعہ ووٹ کاسٹ کر لے گا تو پھر وہ دوسری دفعہ ایسا نہیں کر سکے گا۔خودکار  کمپیوٹرائزڈ  بیلیٹنگ مشین اس کی یہ کوشش اس پیغام کے ساتھ رد کر دے گی کہ “ہم معذر ت خواہ ہیں آپ اپنی پسندیدہ جماعت کو ووٹ دینے کا حق پہلے ہی استعمال کر چکے ہیں۔یوں اس عمل کے ذریعے سو فیصد صاف شفاف انتخابات جس کے وعدے اور دعوے ہم آئے روز سنتے آرہے ہیں ،کا انعقاد یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ اس عمل اور نظام کے بے شمار دیگر فوائد الگ ہیں جن کابیان اور احاطہ یہاں ایک کالم میں کرنا ممکن نہیں۔صرف مختصرا اتنا عرض کرنا کافی ہے کہ جس بدبو دار جاگیر درانہ نظام کو جڑوں سے اکھا ڑنے کے لیے ہم گزشتہ پینسٹھ برسوں سے ناکام جدوجہد کرتے چلے آرہے ہیں اور جس کے خلاف نعرے لگا کر بہت سی سیاسی جماعتیں عوام سے ووٹ بٹورتی ہیں،اس کو اس نظام انتخاب کے ذریعے بڑی آسانی سے زمین بوس کیا جاسکتا ہے۔جب کوئی حلقہ ہی نہیں ہوگا تو کسی جماعت کے سربراہ کو کیا پڑی کے وہ جاگیر داروں کا ٹولا اپنے ساتھ لے کر عوام پر مسلط کرتا رہے۔اگر حسن زن سے کام لیا جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ جناب نواز شریف صاحب جیسا محب وطن اور مخلص کوئی دوسرا شخص اس ملک میں موجود نہیں ،اگر فرض کر لیا جائے کہ زرداری صاحب بھٹو صاحب کے سچے سیاسی جانشین ہیں اور اگر تسلیم کر لیا جائے کہ عمران خان حقیقی تبدیلی کی علامت ہیں ۔تب بھی یہ سارے لوگ مجبور ہیں کہ ہر حلقے میں کسی لغاری،کسی کھوسے ،کسی گیلانی ،کسی چوہدری ،کسی ٹوانے،کسی دولتانے یا پھر کسی سردار اور خان کو ہی ٹکٹ دیں ،بصورت دیگر وہ اپنی سیٹ کھودیں گے۔مگر جب حلقے بندیوں کی لعنت کا خاتمہ ہو جائے گا تو کسی عمران خان کو لوٹوں کا ریوڑ اکھٹا کرنے کی ضروت باقی نہیں رہی گی۔لوگ براہ راست پارٹی کو ووٹ دیں اور پارٹی ایمان دار ،قابل اور اہل لوگوں کو ملنے والے ووٹ کے تنا سب سے پارلمینٹ میں
بھیجے۔جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا کہ یہ موضوع ایک الگ بجث ہے جس پر پھر کسی موقع پر تفصیلی گزارشات پیش کرونگا مگر یہاں یہ بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی اذیت ناک مسائل کے اذدھے سے عوام اور ملک کو نجات دلانا چاہے تو اس کے لیے صرف اور صرف ایک چیز کی ضرورت ہے اور اسکا نام ہے حسن نیت، جو فی زمانہ حکمران طبقے میں جنس نایاب ہو گئی ہے۔لہذا عوام کو کسی مسیحا کا انتظار کرنے کے بجائے تیونس ،لیبا اور مصر کے عوام کی طرح خود آگے بڑھ کر حکمرانوں پر دباؤ بڑھانا ہوگا ورنہ ہماری مزید کئی نسلیں اہل  اقتدار کی ہوس کا نشانہ اور ان کی غلطیوں کا خمیازہ بگھتتی رہیں گی

No comments:

Post a Comment