Thursday 26 June 2014

تئیس جون اور چومکھی لڑائی


 تین دن کا مجوزہ استقبالی پروگرام ایک دن میں  سمٹا تو بہت سوں کے ساتھ ساتھ  میڈیا کے نمائندوں کی جان میں بھی جان آئی ۔قادری صاحب سے ہمارا گلہ ہی یہی ہے کہ وہ یا تو میڈیا پہ بالکل نہیں آتے اور یا پھر بس وہی آتے ہیں اور کچھ نہیں آتا۔اس دوران بے چارے رپورٹروں،کمیرہ مینوں اور ڈی ایس این جی سٹاف کو کتنے گھنٹے جاگ انقلاب کی کھیر  کے لیے  اپنا کتنا خون پسینہ بہانا پڑتا ہے ،قادری صاحب کی بلا سے ،مگر ان سے گزارش ہے کہ جب ان کا انقلاب ظہور پزیر ہوجائے تو ہم غریب صحافیوں کی روزی روٹی کا بھی کوئی بہتر منصوبہ بنائیں ، ان تھک کام اور بے شمار قربانیوں کے باجود ایک صحافی کی معاشی حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کئی خاندان لڑکے کو صرف اس وجہ سے رشتہ دینے سے انکار کر دیتے ہیں کہ وہ صحافی ہے۔تئیس جون آیا اور گزر گیا ،اب حکومت اور قادری صاحب دونوں الگ الگ اس کے جملہ ثمرات سمیٹنے میں مصروف ہیں جب کہ ہم میڈیا والے بیچارے ابھی تک اس کے اثرات کی زد میں ہیں
۔قادری صاحب کی آمد کے اعلان سے لے کر ان کی لاہور تشریف آوری تک بہت کھچھ کہا اور لکھا جاچکا ۔بہت سا اور بھی کہا اور لکھا جاتا رہے گا مگر اس میں سے ایک پہلو عوامی تحریک کے کارکنوں کے ہاتھوں پولیس اہلکاروں پر  تشدد ہے،تینتیس سال تک ہر حال میں  پرامن رہنے والے کارکن اگر کسی روز پولیس والوں پر ٹوٹ پڑیں تو خبرتو  بنتی ہے مگر یہ سب ہوا کیسے ؟یہی آج کا موضوع ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق تشدد کے نتیجے میں 200 سے زائد افراد زخمی ہوئے جن میں سے70 سے 80 پولیس اہلکار تھے،بزرگ وزیر اطلاعات نے کل زخمیوں اہلکاروں کی عیادت کے بعد یہ عدد 78بتایا مگر ساتھ ہی روانی میں کہہ گئے کہ 100اہلکاروں کی ہڈیا ں توڑی  گئیں۔مجھ میں تو گستاخی کی ہمت نہیں مگر وہ کچھ تشریح فرما دیںتو مجھ جیسے طالب علم کی بھی  رہنمائی ہوجائے گی کہ زخمی 78تھے تو 100کی ہڈیاں کیسے ٹوٹ گئیں؟ اور اگر ہڈیاں 100کی ٹوٹیں تو پھر زخمی 78کیسے ہوگئے ؟ڈی ایچ کیو راولپنڈی سے تو کچھ دوستوں نے اور بھی دلچسب معلومات بھیجیں ،پرویز رشید بزرگ تو ہیں ہی ،راولپنڈی پولیس اور انتظامیہ نے ہسپتال عملے کی ملی بھگت سے انہیں ٴٴماموںٴٴ بھی بنا دیا ۔اطلاعات ہیں کہ وزیراطلاعات کی آمد کا سن کر کئی ایسے پولیس اہلکاروں کو گھروں سے بلوا کر بیڈ پر دوبارہ لٹایا گیا جو طبعی امداد کے بعد گزشتہ روز ہی ہسپتال سے فارغ کر دیے گئے تھے ،یہ اہلکار آتو گئے لیکن ٴٴجیسے تھےٴٴ ویسے نہ آسکے جس پر اعلی حکام ان پر خوب برسے کہ ڈرامے میں رنگ بھرنے کے لئے  وہ خون میں ڈوبی وردیاں کیوںنہیں پہن کر آئے۔خیر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں زخمی پولیس اہلکاروں یا ان کے خاندان کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں مگر ایک بار صحت یاب ہو جانے والوں کو باربار ہسپتال آنے کی زحمت دینا بھی تو ناانصافی کی بات ہے ،اب نہ جانے کون کون ان اہلکاروں کی عیادت کو آئے گا اور نہ جانے کتنے دنوں تک آتا رہے گا،اس طرح ہسپتال کے چکر لگتے رہے تو یہ اہلکار کہیں واقعی بیمار نہ ہوجائیں۔ہسپتال انتظامیہ اور پولیس حکام اگر تھوڑی سی ذہانت کا مظاہرہ کریں تو یہ مشکل بھی حل ہوسکتی ہے۔ہسپتال میں زخمیوں اور بیماروں کی تو کوئی کمی نہیں ہوگی ،کرنا صرف یہ ہے کہ چند ایک وردیاں وہ بھی خون میں لت پت منگوا کر رکھ لی جائیں اور جب کوئی وی آئی پی شخصیت عیادت کے لیے آنے لگے تو کسی بھی مریض یا زخمی کو وارڈ سے اٹھا کر  وہ وردی زیب تن کرا دی جائے ،البتہ بیڈ پر دوبارہ لٹانے سے قبل اس کے منہ پر آکیسیجن ماسک لگانا نہ بھولیے گا ورنہ کیا خبر فوٹو سیشن کے لیے آئے وزیر موصوف یا صحافیوں کے سامنے ایمرجنسی مریض کچھ اگل ہی نہ دے ،ہاں ان کے جانے کے بعد بے شک مریض کو ڈھڈے مار کر دوبارہ اسے اصلی مقام پر پہنچا دیا جائے۔دوسرا حل یہ ہوسکتا ہے کہ اہلکار بدل بدل کر ہسپتال بھیجے جائیں اس سے ایک تو ان کی تفریح کا سامان بھی نکلتا رہے گا اور دوسرا ایک ہی بندہ باربار ہسپتال آنے جانے کی زحمت سے بچ جائے گا۔اس تجویز پر عمل سے قبل متعلقہ اہلکاروں کو اعتماد میں ضرور لے لیا جائے ورنہ نقلی مریض اس بات پر شور نہ کرڈالیں کہ چیک تو اصلی زخمی پہلے روز ہی لے گیا اب ہمیں خواہ مخواہ کیوں ماموں بنایا جارہا ہے؟ خیر زخمی کم ہوںیا ذیادہ ،بہرحال زخمی ہی ہیں اور ان پر تشدد واقعی قابل مذمت ہے ،شکر ہے عوامی تحریک کے کارکنوں نے بدلے کی آگ محض لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے ہی بجھا لی ورنہ اگر وہ بھی لاہور پولیس کے شیروں کی طرح سیدھی گولیاں چلانا شروع کردیتے تو قادری صاحب کا ریڈ کارپٹ استقبال ریڈ بلڈ ہوسکتا تھا ۔تشدد ہوا مگر ہوا کیسے ،اسی کا جائزہ لیتے ہیں ،دراصل ہوا کچھ یوں کہ عوامی تحریک کے کارکن رات بھر جڑواں شہروں کے مختلف مقامات پر پولیس سے کُٹ کھاتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی ٟدیگر شہروںکے کارکنوں نے اپنی  اپنی مقامی پولس ک ہاتھوں حصہ بقدر جثہ کُٹ کھاٖئی اسکا یہاں ذکر نہیں کیا جارہا ٞ نماز فجر کے وقت کورال چوک میں ذیادہ تر کارکن نماز کی ادائیگی کے لیے نزدیکی مسجد چلے گئے ،پولیس نے باقی ماندہ  مجمع تھوڑا دیکھ کر ان پر چڑھائی کردی
،آنسو گیس کی اتنی زبردست شیلنگ ہوئی کہ میڈیا کے نمائندوں کو بھی بھاگ کر جان بچانا پڑی ،اس دوران ایک چارسالہ بچی سانس بند ہونے سے دم توڑ گئی جس پر کہرام مچ گیا،عین اسی وقت پولیس کے  قابل افسران نے ایک اور واردات ڈالی ،مجمع پر چڑھائی کے دوران چالیس کے قریب خواتین کے سروں سے دوبٹے کھینچ کر بھیڑ بکریوںکی طرح گاڑیوں میں ڈالا اور تھانہ کورال لے گئے ،یہ کلائمکس تھا ،اُدھر شیخ الاسلام کی آمد میں محض ایک گھنٹہ رہ گیا تھا اور کارکنوں کے صبر کا پیمانہ ویسے ہی لبریز ہوچکا تھا ،ابتدا میں ٴٴمرشدٴٴ کے شہر  جھنگ کے تیس سے چالیس نوجوان آگے بڑھے اور آزاد کشمیر سے لائے گئے پولیس کے بہادر جوانوں پر ہلہ بول دیا،اس کے بعد رکاوٹوں کی باری آئی تو یہ بھی چند منٹ کی مار ٹھیریں ۔یہی وہ وقت تھا جب پولیس کے پاس سوائے اندھا دندھ شیلنگ کے اور کوئی چارہ نہ تھا ،آنسو گیس کی اتنے شیل فائر کیے گئے کہ ایئرپورٹ سے اضافی ذخیرہ منگوانا پڑا،یہاں ایک بات کی داد دینا لازمی ہے کہ باجود اشتعال کے پولیس نے لاہوری پیٹی بھائیوں کی طرح گولی نہیں چلائی،اس کی اجازت نہ تھی اور یہ ایک مستحسن فیصلہ تھا ۔اب سوال یہ ہے کہ پولیس کے کم ازکم دو سے تین ہزار جوان کورال چوک سے بھاگے کیوں ؟َ یہ کہانی بھی دلچسب ہے  جو بعد میں متعدد پولیس والوں کے انٹرویو کے دوران معلوم ہوئی ۔پتا چلا کہ جب شیلنگ اپنے نکتہ عروج پر تھی تو عین اسی لحمے ہوا نے اپنا رخ بدل لیا اورمشرق سے مغرب کی سمت چل پڑی ،اب کیا تھا جو شیل پولیس کارکنوں پر پھینکتی اس کے اثرات واپس خود ان پر ہی قیامت بن کر لوٹ آتے ،یہ سلسلہ اتنا بڑھا کہ بالآخر شیر جوانوں نے ایئرپورٹ کی سمت بھاگنے میں ہی عافیت جانی۔ان کے ہمراہ بکتر بند گاڑیاں بھی تھی جہاں سے مسلسل  آنسو گیس فائر ہوتی رہی مگر نتیجہ الٹ ہی نکل رہا تھا ۔اسے ٴٴشیخ الاسلام ٴٴ  کی کرامت سمجھوں یا عوامی تحریک کے کارکنوں کا اخلاص ،مگر یہ غیبی مدد ضرور تھی ۔

ہم میں سے ذیاہ تر میڈیا نمائندے  اٰیئرپورٹ موجود تھے ،اتنی بڑی  تعداد میں کارکنوں کے بجائے پولیس کو اپنی طرف بھاگتا دیکھ کر ماتھا ٹھینکا ،مگر کچھ سوچنے سمجھنے سے قبل ہی عمار چوک کی جانب سے پولیس کی گاڑیاں آن پہنچیں ،ان کی فائر کی گئی آنسو گیس کی زد سے ہم بھی نہ بچ سکے،صورتحال یہ تھی کہ بائیں جانب سے کارکنوں کا ہجوم پولیس کی ایک بھاری نفری کو ہانکتا ہوا لا رہا تھا اور ایئرپورٹ کے  دائیں جانب یعنی عمار چوک کی جانب کھڑی پولیس فورس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کریں ،مگر اس دوران ہم میڈیا کے افراد ضرور سینڈویچ بنتے نظر آرہے تھے کیونکہ ہم عین شاہراہ کے بیچ کھڑے تھے،جب پولیس بالکل پاس آگئی  اور آنسو گیس بھی ناقابل برداشت ہوگئی تو میڈیا کے نمائندوں کو بھی اسی سمت بھاگنا پڑا جس طرف ہجوم پولیس کو لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے ہانکتا جا رہا تھا۔چند منٹ ہی گزرے ہونگے کہ ایئرپورٹ کے سامنے دونوں شاہروں پر کارکنوں کا قبضہ تھا اور پولیس کا کہیں نام ونشان نہ تھا ،جوشیلے نوجوان تو شاید پولیس والوں کو صدر تک چھوڑ کر دم لیتے لیکن کسی بھاگتے شخص نے انہیں بتایا کہ بھائی ایئرپورٹ تو پیچھے رہ گیا ہے ،اس پر اچانک انہیں جیسے ہوش آگیا ،ایک قدرے سنیئر کارکن نے دوسروں کو آواز لگائی ٴٴ اوکَھلو وَنجو مَروشَالا۔۔اٰیئرپورٹ  تاں  پچھاں رہ گیا اےٴٴ
تیس سے چالیس نوجوان کارکنوں نے سر پر ہاتھ رکھے اور ایک لمبی سی ہیںںںںںںںںںںںںں کے بعد پیچھے کو دوڑ پڑے ،اب پولیس کی باری تھی۔پندہ بیس نے ملکر ایک نوجوان کو پکڑ لیا ،اور لاٹھیوں سے اس کی وہ درگت بنائی کہ آٖیندہ انقلاب کا نام لیتے بھی دس بار سوچے گا،اس وقت چونکہ وہاں میڈیا کا کوئی کیمرہ موجود نہ تھا ورنہ آج اس تشدد کی ویڈیو سوشل میڈیا پر ذیادہ مقبول ہوتی ۔یہ آخری تشدد تھا جو میں نے دیکھا اس کے بعد مجمع جم کر ایئرپورٹ کے سامنے ایسا بیٹھا جیسے واقعی انقلاب آچکا ہو۔تنقید کرنا دنیا کا سسب سے آسان کام ہے،لیکن کردار دکھانا اتنا ہی مشکل
۔یہ سچ ہے کہ عوامی تحریک کے کارکنوں نے بھی پولیس کی خوب درگت بنائی لیکن یہی وہ کارکن تھے جو چند روز قبل نہتے اپنے سینوں پر گولیاں کھاتے رہے مگر جواب میں ایک گولی بھی نہ چلائی ۔اگر یہ تیس سے چالیس نوجوان تین ہزار پولیس کے مسلح نوجوانوں کو کورال چوک سے عمار چوک تک چار کلو میٹر تک بھگا سکتے ہیں تو منہاج القرآن سیکریٹریٹ کے اندر مورچہ زن ہوکر وہاں کے مسلح سیکورٹی گارڈ کیا کچھ نہیں کر سکتے تھے لیکن وہ صرف  گولیاں کھاتے رہے ،لاشیںگرتی رہیں اور صبر کا پہاڑ بلند سے بلند تر ہوتا گیا۔راولپنڈی کے کارکن بھی کچھ مختلف نہ تھے مگر شاید لاہور واقعہ کا اثر تھا کہ عین اس وقت سجدے میں گر گئے جب وقت قیام آیا لیکن اگر وہ ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تو شاید کبھی ایئرپورٹ نہ پہنچ پاتے ،یہ بھی کہانی اب تک سمجھ سے بالا ہے کہ جب ایک عام پردیسی کی واپسی پر اسکے بیس تیس پچاس رشتہ دار اسے لینے ایئرپورٹ  آجاتے ہیں تو ایک اچھی خاصی پھلتی پھولتی پارٹی کے قائد کو اگر وطن واپسی پر چند ہزار افراد استقبال کے لیے آگئے تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑی تھی؟ بجا کہ عوامی تحریک کے قائد کے لیے کوئی خطرہ موجود تھا مگر یہ خطرہ تو ان کی رہائش
 گاہ اور ان کے سیکریٹریٹ میں بھی ہے جہاں سے حکومت  نے خود پولیس کے خونی آپریشن کے ذریعے تمام حفاظتی رکاوٹیں ہٹا دی  ہیں۔شاید قادری صاحب کی حفاظت میڈیا پر عوام کے پیسوں سے کروڑوں روپے کے اشتہار دینے سے بہتر ہوسکتی تھی اور یہ حفاظتی بیرئر تو بس ایویں تھے ۔دودھ پیتا کوئی بچہ بھی اتنا جان سکتا ہے کہ اسلام آباد راولپنڈی میں شہریوں کو سیکورٹی کے نام پر محصور کرنے کا مقصد کیا تھا مگر اس ملک میں سب بکتا ہے ۔ایک بات طے ہے کہ قادری صاحب نے اگر واقعی انقلاب لانا ہے تو انہیں چومکھی لڑائی لڑنی پڑے گی۔دشمنوں کے ساتھ حال ہی میں بنے دوستوں پر بھی نظر رکھنا ہوگی ،یہ جس کے ہوتے ہیں اسکا کوئی اور کم ہی ہوتا ہے،انہیں سوچنا ہوگا کہ عدالت کے بعد انہیں ٴٴوہٴٴ بھی مایوس کرچکے ہیں جنہیں قبلہ تین مختلف مواقوں پر بانگ دَھُل سیکورٹی کے لیے  پکار تے رہے ،پہلی مرتبہ لانگ مارچ کی سیکورٹی کے لیے ،دوسری بار ایئرپورٹ پر حفاظث کے لیے اور تیسری دفعہ  لاہور میں جہاز کے اندر بیٹھے ہوئے،قادری صاحب کو سوچنا ہوگا کہ ان کی غیر مشروط حمایت و مدد پر ان کو کیا صلہ مل رہا ہے ؟

Sunday 4 May 2014

اقامت سے جماعت تک


دھاندلی کے معاملے پر عمران نے سابق نام نہاد چیف جسٹس سے نوٹس کی اپیل کی،وہ بیکار گئی ،خان صاحب حکومت کے کنٹریکٹ پر رکھے ہوئے الیکشن ٹربیونلز کے پاس چلے جاتے ہیں ،جہاں چار مہینے میں فیصلہ کے بجائے مٹی پائو سکیم متعارف کرادی گئی ہے۔پھر کپتان کے پاس سوائے اس کے اور کیا حل ہے

کہ وہ دھاندلی زدہ الیکشن کے خلاف عوام سے رجوع کرئے؟؟؟؟ رہی بات قادری صاحب کی تو ان کا معاملہ 
     الگ اور ایجنڈہ مخلتلف ہے

بظاہر لوگوں کو گیارہ مئی کے احتجاج میں تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک میں مماثلت نظر آرہی
 ہے اور بعض حلقے اسے غیر اعلانیہ اتحاد کا نام بھی دے رہے ہیں لیکن حقیقت میں ان دونوں جماعتوں کے مطالبات اور ایجنڈہ میں واضح فرق ہے۔۔عمران صرف چار مخصوص حلقوں میں انگھوٹو ں کی چیکنگ چاہتے ہیں جب کہ قادری صاحب تو قوم کو اس فرسودہ ،کرپٹ اور استحصال پر مبنی سیاسی و انتخابی نظام سے مکمل نجات کی نوید سنا رہے ہیں،عمران کی منزل اگلا الیکشن ہے جب کہ قادری صاحب کو 33برس قبل شروع کی گئی انقلاب کی منزل اب قریب نظر آتی دکھائی دے رہی ہے۔ان کی اذان انقلاب ،اقامت انقلاب اور جماعت انقلاب کی اصطلاحوں میں ان کے ایجنڈے اور پروگرام کی جھلک واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ دو جماعتیں کبھی ایک ایجنڈے پر متفق نہیں پائیں گی ،اس کے لیے میاں صاحب سمیت کرپٹ نظام کے پروردہ تمام سٹیک ہولڈرز کو خوشی کے شادیانے بجانے چاہیں۔بات سیدھی سی ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنوں کی تربیت کسی متوقع انقلاب کے لیے ہوئی ہی نہیں جبکہ قادری صاحب کے کارکن روز اول سے مصطفوی انقلاب کی جدوجہد میں مگن رہے ہیں ،اب ان کی کاوشیں اپنے حتمی اور اختتامی مراحل میں داخل ہورہی ہیں ،اس لیے ان دونوں جماعتوں کے درمیان اتحاد کی باتیں محض یار لوگوں کی محض خام خیالی ہے،دیگر بہت سی وجوہات کے علاوہ دہشت گردی اور طالبانائزیشن ایسے معاملات ہیں جن پر قادری صاحب اور خان صاحب کے موقف میں ایک سو اسی درجے کا فرق ہے،آنے والے دنوں میں یہ فرق اور بھی واضح ہوجائے گا۔۔۔میرا اندازہ ہے کہ انقلاب کے سفر میں قادری صاحب کے ہمسفر صرف عام لوگ ہونگے کیونکہ تحریک انصاف کے علاوہ مجلس وحدت المسلمین بھی فیصل رضا عابدی کے آنے کے بعد قادری صاحب کے ایجنڈے پر پہلے جیسی گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کر رہی،ایم کیوایم نے حال ہی میں حکومت کی گود میں جاکر عوامی تحریک کے لیے کمک کے امکان کو ختم نہیں تو معدوم ضرور کردیا ہے،سنی جماعتیں اب تک قادری صاحب کے انقلاب کے حوالے سے کوئی واضح پوزیشن نہیں لے پائی ہیں،رہے فرزند راولپنڈی تو وہ ہمیشہ سے تیل اور اسکی دھار دیکھتے ہیں ،باقی بچتے ہیں جناب مشرف صاحب تو ان کا شامل ہونا نہ ہونا برابرا ہے ،وہ عوام کو نکالنے کی صلاحیت رکھتے تو اپنے عدالتی معاملات سے بچنے کے لیے ہپتالوں کا سہارا نہ لیتے رہتے۔ لگتا یوں ہے کہ اس تمام متوقع صورتحال کا عوامی تحریک کے قائد کو بھی پہلے ہی سے اندازہ ہے اس لیے اب انکی جماعت کا نیا سلوگون ٴٴ کون بدلے گا نظام ،طاہر القادری اور عوامٴٴ حقیقت کے قریب تر معلوم ہوتا ہے۔


Saturday 13 July 2013

یہ بدگمانیاں ہمیں کہاں لے جائیں گی؟؟؟





اقوام متحدہ کا ملالہ ڈے گزرا ،فیس بک پر یاروں کے عجب تبصرے پڑھے،کوئی ڈرامہ کہہ رہا تھا تو کوئی سازش۔۔بھانت بھانت کی بولیاں۔۔۔۔۔۔مگر مجھے تو فخر محسوس ہوا کہ دنیا کے تمام لیڈرز میرے دیس کی اک بیٹی ،سوات کی گل مکئی کے پیچھے پیچھے تھے اور وہ شال میں لپٹی کلی سب سے آگے۔۔بھٹو سے لے کر بے نظیر اور ایوب سے لے کر مشرف تک کبھی کسی نے عالمی پلیٹ فارم پر سرسبز ہلالی پرچم کو اتنا اونچا کیا جس قدر وہ سولہ سال کی ایک نہیف سی لڑکی کرگئی؟؟؟ بان کی مون سے لے کر گورڈن براؤن تک سب میرے دیس کی بیٹی کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے۔کہنے والوں نے کہا کہ اقوام عالم کے پلیٹ فارم پر اتنی پزیرائی یا نیلسن مینڈیلا کو ملی یا پھر اس دختر پاکستان کو کہ جس کی بہادری اور علم دوستی کے چرچے اب چاردہانگ عالم ہیں۔پتہ نہیں کیوں ہمیں ہر کام سازش،ہر شخص ایجنٹ لگنے لگتا ہے۔مجھے تو ایک ہی بات نظر آتی ہے اور وہ ہماری طبیعتوں میں چھپا ہوا حسد۔۔۔۔۔نہیں تو پھر اس ننھنی منی بے نظیر کو اپنے ملک میں اس قدر پزئرائی کیوں نہ مل سکی جس قدر غیر اس پر نچھاور ہیں؟؟ کچھ کا کہنا ہے کہ اس کی تقریر اغیار کو خوش کرنے کے لیے تھی۔حیرت ہے!!! اگر پہلی بار باچا خان کا نام اقوام متحدہ میں گونجا تو اس میں برا کیا؟؟ْاگر ملالہ نے پیغمبر اسلام کے بعد حضرت عیسی ، لارڈ بدھا، مارٹن لوتھر کنگ، نیسلن منڈیلا سمیت دیگر عالمی رہنماؤں کا بھی تذکرہ کیا تو تعجب کیا ؟؟آخر وہ اقوام عالم سے مخاطب تھی ،اسلام آباد کے کسی ڈی چوک میں جامعہ حفضہ کی طالبات سے تو نہیں ۔۔اس کی تقریر نہایت نپی تلی اور موقع مناسبت سے شاندار تھی۔۔۔۔۔ایک ایسے پوڈیم پرسے جہاں فیڈل کاسٹرو، جنرل ضیاء الحق، یاسر عرفات، بینظیر بھٹو، ہیل سلاسی، دلائی لامہ ، براک اوباما، جارج بش، نیلسن مینڈیلا اور ہیوگو شاویز جیسے رہنما خطاب کرچکے ،وہاں ایک سولہ برس کی لڑکی کا سادہ مگر بلا کا پراعتماد لہجہ کمال تھا۔۔۔اس نے جو بھی کہا وہ پاکستان کا حقیقی روشن چہرہ ہے۔۔کیا برا تھا اس کی تقریر میں ؟؟اگر اس نے علم سے محبت کا درس دیا تو یہی قرآن و سنت کی تعلیمات نہیں؟؟ اس نے اپنے دشمن کو بھی معاف کیا تو کیا یہی میرے کریم آقا کی سنت نہیں ؟؟؟ اس نے دہشت گردی کی مذمت کی تو کیا یہی میرے ملک کا ناسور نہیں؟؟ کیا تھی اس میں سازش؟؟کہاں تھا ڈرامہ؟؟؟ پتہ نہیں ہم اس قدر منفی سوچ کے حامل کیوں ہوگئے ہیں۔عمران خان کو ایک عالم سلام پیش کرتا ہے مگر شک نے ہماری سوچ کو اس قدر پراگیندہ کردیا کہ اس کی ملک کے لیے خدمات ہمیں نظر نہیں آتیں؟ڈاکٹر قادری کی دینی ،ملی اور فلاحی خدمات سے ایک جہاں واقف اور ایک دنیا انہیں پاکستانی سکالر کے طور پر جانتی ہے ۔مگر ہم ان کی حب الوطنی پر شک کو فرض منصبی سمجھتے رہے۔۔۔ڈاکٹر لعل خان ،مزدورں ،محنت کشوں اور مظلوم استحصال زدہ طبقے کے لیے جدوجہد کا ایک استعارہ ہے مگر ہم میں سے کتنے ہیں جو ان کے نام سے بھی واقف ہیں؟؟ْ عمران سے قادری اور پھر ملالہ تک بدگمانی ہمیں کہیں کا نہ چھوڑے گی۔۔ہر ایک پر شک کی روش سے لگتاہے میری قوم کو کسی فرشتے کا انتظار ہے جو ان کے سارے دکھوں کا مداوا کردے گا۔

Sunday 16 December 2012

مینار پاکستان پر سب سے بڑے سٹیج کی تیاریاں شروع ہوگئیں

 
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے استقبال کی مناسبت سے 23 دسمبر دو ہزار بارہ کو  ہونے والے جلسے کی تیاریوں کا مینار پاکستان پر چھ روز قبل ہی آغاز ہوگیا.
تحریک کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات قاضی فیض الاسلام کے مطابق  سب سے بڑے سٹیج کی تیاری کے سلسلے میں بیس کینٹنرز مینار پاکستان پہنچا دیے گئے .سٹیج کی تیاری کے لیے تحریک منہاج القرآن کے پانچ سو نوجوان مصروف عمل ہیں جبکہ  مزید ہزار نوجوانوں کا قافلہ بھی کل مینار پاکستان پہنچ جائے گا.23 مارچ کے جلسے کی میڈیا کوریج کے لیے  بلند و بالا جگہ پر بڑے کینٹینرز لگا دیے گئے ہیں .قاضی فیض الاسلام کے مطابق اتوار کے روز ہونے والے جلسے کے لیے کراچی ،اندرون سندھ ،آزاد کشمیر اور بلوچستان سمیت ملک کے دور دراز علاقوں سے جمعے کے روز ہی قافلے پنڈال میں پہنچنا شروع ہوجائیں گے جن کے لیے مینار پاکستان کے احاطے میں دس واٹر پروف کیمپ لگا دیے گئے ہیں ..خواتین کے لیے الگ پنڈال کی تیاری کا کا م بھی جاری ہے.

Thursday 6 December 2012

ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش کے درمیان چوتھا ون ڈے آج کھیلا جائے گا،کالی آندھی کے پاس سیریز میں واپسی کا آخرموقع



ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش کے درمیان پانچ میچوں کی سیریز کا چوتھا ون ڈے انٹرنیشنل  آج  کھیلا جائے گا.

سییریز میں اب تک بنگال ٹائگرز کو دو ایک کی برتری حاصل ہے ، کل کا میچ کالی آندھی کے لیے سیریز میں واپسی کا آخری موقع ہوگا.اگر بنگلہ دیش نے پہلے دو ون ڈے میچز کی طرح کی کارکردگی دکھائی تو سیریز میزبان ٹیم کے نام ہوجائے گی. دوسری جانب اگر مہمان ٹیم میچ میں حاوی ہوگئی تو پھر آخری ون ڈے میچ فائنل کی حثیت اختیار کر جائے گا.سیریز میں بنگال ٹائگرز کو شکیب الحسن کی خدمات حاصل نہیں لیکن تمیم اقبال اور انعام الحق سمیت دیگر کھلاڑیوں نے خاطر خواہ کارکردگی دکھائی ہے. ویسٹ انڈیز کی جانب سے کرس گیل کا بلا ابھی تک ون ڈے سیریز میں نہیں چل سکا ،اگر وہ فارم میں واپس آگئے تو بنگالی ٹیم کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے.

کلکتہ ٹیسٹ:انگلینڈ نے میچ پر گرفت مظبوط کرلی ،ایک وکٹ پر دو سوسولہ رنز بنالیے



کلکتہ ٹیسٹ کے دوسرے روز کھیل کے اختتام پر انگلینڈ نے بھارت کے تین سو سولہ رنز کے جواب میں ایک وکٹ کے نقصان پر دو سو سولہ رنز بنا لیے ہیں .

دوسرے دن بھارت نے دو سو تہتر رنز سات کھلاڑی آئوٹ پر اپنی نامکمل اننگز دوبارہ شروع کی اور اس کے بقایا تین کھلاڑی سکور میں تینتالیس رنز کا اضافہ کر کے پویلن لوٹ گئے . انگلینڈ نے جواب میں ایک وکٹ کھو کر دو سو سولہ رنز بنالیے .مہمان ٹیم کو پہلی اننگز کا سکور برابرا کرنے کے لیے مزید ایک سو رنز درکار ہیں اور اس کی نو وکٹیں باقی ہیں .الیسٹر کُک ایک سو چھتیس اور ٹرائوٹ اکیس رنز کے ساتھ کریز پر موجود ہیں .

روبرٹ پٹینسن اور کرسٹن سٹیورٹ کرسمس الگ الگ منائیں گے


رپرٹ سینڈرز  تنازعے کے بعد حال ہی میں پھر سے دوست بن جانے والے روبرٹ پیٹینسن اور کرسٹن سٹیورٹ کرسمس الگ الگ منائیں گے .

لندن میں گزشتہ ہفتے سٹار کی گرل فرینڈ نے ان کی فیملی کے ساتھ ڈنر کیا تھا جو سٹیورٹ کے لیے کسی امتحان سے کم ثابت نہیں ہوا تھا. خصوصا شادی شدہ ڈائریکٹر کےساتھ تعلقات کی خبروں کے بعد سٹیورٹ پیتینسن کی فیملی کے سامنے کچھ اچھا محسوس نہیں کر رہی تھیں.خاص طورپر تقریب میں موجود روبرٹ پیٹینسن کی بہن کی وجہ سے سٹیورٹ کافی نروس دکھائی دی تھیں. دوسری جانب سٹار ایکٹر جو پچھلے کافی عرصے سے ٹولائٹ ساگا بریکنگ ڈان ٹو  کی پروموشنل کمپین کی وجہ سے گھر سے دور رہے ،اب کرسمس اپنے خاندان کے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں .ماضی کے تجربے کے پیشے نظر سٹیورٹ اپنے بوائے فرینڈ کی فیملی کا سامنا کرنے کے لیے اب بالکل بھی تیار نہیں .یہی وجہ ہے کہ دونوں نے کرسمس الگ الگ رہ کرمنانے کا فیصلہ کیا ہے.