Sunday 4 May 2014

اقامت سے جماعت تک


دھاندلی کے معاملے پر عمران نے سابق نام نہاد چیف جسٹس سے نوٹس کی اپیل کی،وہ بیکار گئی ،خان صاحب حکومت کے کنٹریکٹ پر رکھے ہوئے الیکشن ٹربیونلز کے پاس چلے جاتے ہیں ،جہاں چار مہینے میں فیصلہ کے بجائے مٹی پائو سکیم متعارف کرادی گئی ہے۔پھر کپتان کے پاس سوائے اس کے اور کیا حل ہے

کہ وہ دھاندلی زدہ الیکشن کے خلاف عوام سے رجوع کرئے؟؟؟؟ رہی بات قادری صاحب کی تو ان کا معاملہ 
     الگ اور ایجنڈہ مخلتلف ہے

بظاہر لوگوں کو گیارہ مئی کے احتجاج میں تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک میں مماثلت نظر آرہی
 ہے اور بعض حلقے اسے غیر اعلانیہ اتحاد کا نام بھی دے رہے ہیں لیکن حقیقت میں ان دونوں جماعتوں کے مطالبات اور ایجنڈہ میں واضح فرق ہے۔۔عمران صرف چار مخصوص حلقوں میں انگھوٹو ں کی چیکنگ چاہتے ہیں جب کہ قادری صاحب تو قوم کو اس فرسودہ ،کرپٹ اور استحصال پر مبنی سیاسی و انتخابی نظام سے مکمل نجات کی نوید سنا رہے ہیں،عمران کی منزل اگلا الیکشن ہے جب کہ قادری صاحب کو 33برس قبل شروع کی گئی انقلاب کی منزل اب قریب نظر آتی دکھائی دے رہی ہے۔ان کی اذان انقلاب ،اقامت انقلاب اور جماعت انقلاب کی اصطلاحوں میں ان کے ایجنڈے اور پروگرام کی جھلک واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ دو جماعتیں کبھی ایک ایجنڈے پر متفق نہیں پائیں گی ،اس کے لیے میاں صاحب سمیت کرپٹ نظام کے پروردہ تمام سٹیک ہولڈرز کو خوشی کے شادیانے بجانے چاہیں۔بات سیدھی سی ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنوں کی تربیت کسی متوقع انقلاب کے لیے ہوئی ہی نہیں جبکہ قادری صاحب کے کارکن روز اول سے مصطفوی انقلاب کی جدوجہد میں مگن رہے ہیں ،اب ان کی کاوشیں اپنے حتمی اور اختتامی مراحل میں داخل ہورہی ہیں ،اس لیے ان دونوں جماعتوں کے درمیان اتحاد کی باتیں محض یار لوگوں کی محض خام خیالی ہے،دیگر بہت سی وجوہات کے علاوہ دہشت گردی اور طالبانائزیشن ایسے معاملات ہیں جن پر قادری صاحب اور خان صاحب کے موقف میں ایک سو اسی درجے کا فرق ہے،آنے والے دنوں میں یہ فرق اور بھی واضح ہوجائے گا۔۔۔میرا اندازہ ہے کہ انقلاب کے سفر میں قادری صاحب کے ہمسفر صرف عام لوگ ہونگے کیونکہ تحریک انصاف کے علاوہ مجلس وحدت المسلمین بھی فیصل رضا عابدی کے آنے کے بعد قادری صاحب کے ایجنڈے پر پہلے جیسی گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کر رہی،ایم کیوایم نے حال ہی میں حکومت کی گود میں جاکر عوامی تحریک کے لیے کمک کے امکان کو ختم نہیں تو معدوم ضرور کردیا ہے،سنی جماعتیں اب تک قادری صاحب کے انقلاب کے حوالے سے کوئی واضح پوزیشن نہیں لے پائی ہیں،رہے فرزند راولپنڈی تو وہ ہمیشہ سے تیل اور اسکی دھار دیکھتے ہیں ،باقی بچتے ہیں جناب مشرف صاحب تو ان کا شامل ہونا نہ ہونا برابرا ہے ،وہ عوام کو نکالنے کی صلاحیت رکھتے تو اپنے عدالتی معاملات سے بچنے کے لیے ہپتالوں کا سہارا نہ لیتے رہتے۔ لگتا یوں ہے کہ اس تمام متوقع صورتحال کا عوامی تحریک کے قائد کو بھی پہلے ہی سے اندازہ ہے اس لیے اب انکی جماعت کا نیا سلوگون ٴٴ کون بدلے گا نظام ،طاہر القادری اور عوامٴٴ حقیقت کے قریب تر معلوم ہوتا ہے۔