Thursday 26 June 2014

تئیس جون اور چومکھی لڑائی


 تین دن کا مجوزہ استقبالی پروگرام ایک دن میں  سمٹا تو بہت سوں کے ساتھ ساتھ  میڈیا کے نمائندوں کی جان میں بھی جان آئی ۔قادری صاحب سے ہمارا گلہ ہی یہی ہے کہ وہ یا تو میڈیا پہ بالکل نہیں آتے اور یا پھر بس وہی آتے ہیں اور کچھ نہیں آتا۔اس دوران بے چارے رپورٹروں،کمیرہ مینوں اور ڈی ایس این جی سٹاف کو کتنے گھنٹے جاگ انقلاب کی کھیر  کے لیے  اپنا کتنا خون پسینہ بہانا پڑتا ہے ،قادری صاحب کی بلا سے ،مگر ان سے گزارش ہے کہ جب ان کا انقلاب ظہور پزیر ہوجائے تو ہم غریب صحافیوں کی روزی روٹی کا بھی کوئی بہتر منصوبہ بنائیں ، ان تھک کام اور بے شمار قربانیوں کے باجود ایک صحافی کی معاشی حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کئی خاندان لڑکے کو صرف اس وجہ سے رشتہ دینے سے انکار کر دیتے ہیں کہ وہ صحافی ہے۔تئیس جون آیا اور گزر گیا ،اب حکومت اور قادری صاحب دونوں الگ الگ اس کے جملہ ثمرات سمیٹنے میں مصروف ہیں جب کہ ہم میڈیا والے بیچارے ابھی تک اس کے اثرات کی زد میں ہیں
۔قادری صاحب کی آمد کے اعلان سے لے کر ان کی لاہور تشریف آوری تک بہت کھچھ کہا اور لکھا جاچکا ۔بہت سا اور بھی کہا اور لکھا جاتا رہے گا مگر اس میں سے ایک پہلو عوامی تحریک کے کارکنوں کے ہاتھوں پولیس اہلکاروں پر  تشدد ہے،تینتیس سال تک ہر حال میں  پرامن رہنے والے کارکن اگر کسی روز پولیس والوں پر ٹوٹ پڑیں تو خبرتو  بنتی ہے مگر یہ سب ہوا کیسے ؟یہی آج کا موضوع ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق تشدد کے نتیجے میں 200 سے زائد افراد زخمی ہوئے جن میں سے70 سے 80 پولیس اہلکار تھے،بزرگ وزیر اطلاعات نے کل زخمیوں اہلکاروں کی عیادت کے بعد یہ عدد 78بتایا مگر ساتھ ہی روانی میں کہہ گئے کہ 100اہلکاروں کی ہڈیا ں توڑی  گئیں۔مجھ میں تو گستاخی کی ہمت نہیں مگر وہ کچھ تشریح فرما دیںتو مجھ جیسے طالب علم کی بھی  رہنمائی ہوجائے گی کہ زخمی 78تھے تو 100کی ہڈیاں کیسے ٹوٹ گئیں؟ اور اگر ہڈیاں 100کی ٹوٹیں تو پھر زخمی 78کیسے ہوگئے ؟ڈی ایچ کیو راولپنڈی سے تو کچھ دوستوں نے اور بھی دلچسب معلومات بھیجیں ،پرویز رشید بزرگ تو ہیں ہی ،راولپنڈی پولیس اور انتظامیہ نے ہسپتال عملے کی ملی بھگت سے انہیں ٴٴماموںٴٴ بھی بنا دیا ۔اطلاعات ہیں کہ وزیراطلاعات کی آمد کا سن کر کئی ایسے پولیس اہلکاروں کو گھروں سے بلوا کر بیڈ پر دوبارہ لٹایا گیا جو طبعی امداد کے بعد گزشتہ روز ہی ہسپتال سے فارغ کر دیے گئے تھے ،یہ اہلکار آتو گئے لیکن ٴٴجیسے تھےٴٴ ویسے نہ آسکے جس پر اعلی حکام ان پر خوب برسے کہ ڈرامے میں رنگ بھرنے کے لئے  وہ خون میں ڈوبی وردیاں کیوںنہیں پہن کر آئے۔خیر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں زخمی پولیس اہلکاروں یا ان کے خاندان کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں مگر ایک بار صحت یاب ہو جانے والوں کو باربار ہسپتال آنے کی زحمت دینا بھی تو ناانصافی کی بات ہے ،اب نہ جانے کون کون ان اہلکاروں کی عیادت کو آئے گا اور نہ جانے کتنے دنوں تک آتا رہے گا،اس طرح ہسپتال کے چکر لگتے رہے تو یہ اہلکار کہیں واقعی بیمار نہ ہوجائیں۔ہسپتال انتظامیہ اور پولیس حکام اگر تھوڑی سی ذہانت کا مظاہرہ کریں تو یہ مشکل بھی حل ہوسکتی ہے۔ہسپتال میں زخمیوں اور بیماروں کی تو کوئی کمی نہیں ہوگی ،کرنا صرف یہ ہے کہ چند ایک وردیاں وہ بھی خون میں لت پت منگوا کر رکھ لی جائیں اور جب کوئی وی آئی پی شخصیت عیادت کے لیے آنے لگے تو کسی بھی مریض یا زخمی کو وارڈ سے اٹھا کر  وہ وردی زیب تن کرا دی جائے ،البتہ بیڈ پر دوبارہ لٹانے سے قبل اس کے منہ پر آکیسیجن ماسک لگانا نہ بھولیے گا ورنہ کیا خبر فوٹو سیشن کے لیے آئے وزیر موصوف یا صحافیوں کے سامنے ایمرجنسی مریض کچھ اگل ہی نہ دے ،ہاں ان کے جانے کے بعد بے شک مریض کو ڈھڈے مار کر دوبارہ اسے اصلی مقام پر پہنچا دیا جائے۔دوسرا حل یہ ہوسکتا ہے کہ اہلکار بدل بدل کر ہسپتال بھیجے جائیں اس سے ایک تو ان کی تفریح کا سامان بھی نکلتا رہے گا اور دوسرا ایک ہی بندہ باربار ہسپتال آنے جانے کی زحمت سے بچ جائے گا۔اس تجویز پر عمل سے قبل متعلقہ اہلکاروں کو اعتماد میں ضرور لے لیا جائے ورنہ نقلی مریض اس بات پر شور نہ کرڈالیں کہ چیک تو اصلی زخمی پہلے روز ہی لے گیا اب ہمیں خواہ مخواہ کیوں ماموں بنایا جارہا ہے؟ خیر زخمی کم ہوںیا ذیادہ ،بہرحال زخمی ہی ہیں اور ان پر تشدد واقعی قابل مذمت ہے ،شکر ہے عوامی تحریک کے کارکنوں نے بدلے کی آگ محض لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے ہی بجھا لی ورنہ اگر وہ بھی لاہور پولیس کے شیروں کی طرح سیدھی گولیاں چلانا شروع کردیتے تو قادری صاحب کا ریڈ کارپٹ استقبال ریڈ بلڈ ہوسکتا تھا ۔تشدد ہوا مگر ہوا کیسے ،اسی کا جائزہ لیتے ہیں ،دراصل ہوا کچھ یوں کہ عوامی تحریک کے کارکن رات بھر جڑواں شہروں کے مختلف مقامات پر پولیس سے کُٹ کھاتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی ٟدیگر شہروںکے کارکنوں نے اپنی  اپنی مقامی پولس ک ہاتھوں حصہ بقدر جثہ کُٹ کھاٖئی اسکا یہاں ذکر نہیں کیا جارہا ٞ نماز فجر کے وقت کورال چوک میں ذیادہ تر کارکن نماز کی ادائیگی کے لیے نزدیکی مسجد چلے گئے ،پولیس نے باقی ماندہ  مجمع تھوڑا دیکھ کر ان پر چڑھائی کردی
،آنسو گیس کی اتنی زبردست شیلنگ ہوئی کہ میڈیا کے نمائندوں کو بھی بھاگ کر جان بچانا پڑی ،اس دوران ایک چارسالہ بچی سانس بند ہونے سے دم توڑ گئی جس پر کہرام مچ گیا،عین اسی وقت پولیس کے  قابل افسران نے ایک اور واردات ڈالی ،مجمع پر چڑھائی کے دوران چالیس کے قریب خواتین کے سروں سے دوبٹے کھینچ کر بھیڑ بکریوںکی طرح گاڑیوں میں ڈالا اور تھانہ کورال لے گئے ،یہ کلائمکس تھا ،اُدھر شیخ الاسلام کی آمد میں محض ایک گھنٹہ رہ گیا تھا اور کارکنوں کے صبر کا پیمانہ ویسے ہی لبریز ہوچکا تھا ،ابتدا میں ٴٴمرشدٴٴ کے شہر  جھنگ کے تیس سے چالیس نوجوان آگے بڑھے اور آزاد کشمیر سے لائے گئے پولیس کے بہادر جوانوں پر ہلہ بول دیا،اس کے بعد رکاوٹوں کی باری آئی تو یہ بھی چند منٹ کی مار ٹھیریں ۔یہی وہ وقت تھا جب پولیس کے پاس سوائے اندھا دندھ شیلنگ کے اور کوئی چارہ نہ تھا ،آنسو گیس کی اتنے شیل فائر کیے گئے کہ ایئرپورٹ سے اضافی ذخیرہ منگوانا پڑا،یہاں ایک بات کی داد دینا لازمی ہے کہ باجود اشتعال کے پولیس نے لاہوری پیٹی بھائیوں کی طرح گولی نہیں چلائی،اس کی اجازت نہ تھی اور یہ ایک مستحسن فیصلہ تھا ۔اب سوال یہ ہے کہ پولیس کے کم ازکم دو سے تین ہزار جوان کورال چوک سے بھاگے کیوں ؟َ یہ کہانی بھی دلچسب ہے  جو بعد میں متعدد پولیس والوں کے انٹرویو کے دوران معلوم ہوئی ۔پتا چلا کہ جب شیلنگ اپنے نکتہ عروج پر تھی تو عین اسی لحمے ہوا نے اپنا رخ بدل لیا اورمشرق سے مغرب کی سمت چل پڑی ،اب کیا تھا جو شیل پولیس کارکنوں پر پھینکتی اس کے اثرات واپس خود ان پر ہی قیامت بن کر لوٹ آتے ،یہ سلسلہ اتنا بڑھا کہ بالآخر شیر جوانوں نے ایئرپورٹ کی سمت بھاگنے میں ہی عافیت جانی۔ان کے ہمراہ بکتر بند گاڑیاں بھی تھی جہاں سے مسلسل  آنسو گیس فائر ہوتی رہی مگر نتیجہ الٹ ہی نکل رہا تھا ۔اسے ٴٴشیخ الاسلام ٴٴ  کی کرامت سمجھوں یا عوامی تحریک کے کارکنوں کا اخلاص ،مگر یہ غیبی مدد ضرور تھی ۔

ہم میں سے ذیاہ تر میڈیا نمائندے  اٰیئرپورٹ موجود تھے ،اتنی بڑی  تعداد میں کارکنوں کے بجائے پولیس کو اپنی طرف بھاگتا دیکھ کر ماتھا ٹھینکا ،مگر کچھ سوچنے سمجھنے سے قبل ہی عمار چوک کی جانب سے پولیس کی گاڑیاں آن پہنچیں ،ان کی فائر کی گئی آنسو گیس کی زد سے ہم بھی نہ بچ سکے،صورتحال یہ تھی کہ بائیں جانب سے کارکنوں کا ہجوم پولیس کی ایک بھاری نفری کو ہانکتا ہوا لا رہا تھا اور ایئرپورٹ کے  دائیں جانب یعنی عمار چوک کی جانب کھڑی پولیس فورس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کریں ،مگر اس دوران ہم میڈیا کے افراد ضرور سینڈویچ بنتے نظر آرہے تھے کیونکہ ہم عین شاہراہ کے بیچ کھڑے تھے،جب پولیس بالکل پاس آگئی  اور آنسو گیس بھی ناقابل برداشت ہوگئی تو میڈیا کے نمائندوں کو بھی اسی سمت بھاگنا پڑا جس طرف ہجوم پولیس کو لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے ہانکتا جا رہا تھا۔چند منٹ ہی گزرے ہونگے کہ ایئرپورٹ کے سامنے دونوں شاہروں پر کارکنوں کا قبضہ تھا اور پولیس کا کہیں نام ونشان نہ تھا ،جوشیلے نوجوان تو شاید پولیس والوں کو صدر تک چھوڑ کر دم لیتے لیکن کسی بھاگتے شخص نے انہیں بتایا کہ بھائی ایئرپورٹ تو پیچھے رہ گیا ہے ،اس پر اچانک انہیں جیسے ہوش آگیا ،ایک قدرے سنیئر کارکن نے دوسروں کو آواز لگائی ٴٴ اوکَھلو وَنجو مَروشَالا۔۔اٰیئرپورٹ  تاں  پچھاں رہ گیا اےٴٴ
تیس سے چالیس نوجوان کارکنوں نے سر پر ہاتھ رکھے اور ایک لمبی سی ہیںںںںںںںںںںںںں کے بعد پیچھے کو دوڑ پڑے ،اب پولیس کی باری تھی۔پندہ بیس نے ملکر ایک نوجوان کو پکڑ لیا ،اور لاٹھیوں سے اس کی وہ درگت بنائی کہ آٖیندہ انقلاب کا نام لیتے بھی دس بار سوچے گا،اس وقت چونکہ وہاں میڈیا کا کوئی کیمرہ موجود نہ تھا ورنہ آج اس تشدد کی ویڈیو سوشل میڈیا پر ذیادہ مقبول ہوتی ۔یہ آخری تشدد تھا جو میں نے دیکھا اس کے بعد مجمع جم کر ایئرپورٹ کے سامنے ایسا بیٹھا جیسے واقعی انقلاب آچکا ہو۔تنقید کرنا دنیا کا سسب سے آسان کام ہے،لیکن کردار دکھانا اتنا ہی مشکل
۔یہ سچ ہے کہ عوامی تحریک کے کارکنوں نے بھی پولیس کی خوب درگت بنائی لیکن یہی وہ کارکن تھے جو چند روز قبل نہتے اپنے سینوں پر گولیاں کھاتے رہے مگر جواب میں ایک گولی بھی نہ چلائی ۔اگر یہ تیس سے چالیس نوجوان تین ہزار پولیس کے مسلح نوجوانوں کو کورال چوک سے عمار چوک تک چار کلو میٹر تک بھگا سکتے ہیں تو منہاج القرآن سیکریٹریٹ کے اندر مورچہ زن ہوکر وہاں کے مسلح سیکورٹی گارڈ کیا کچھ نہیں کر سکتے تھے لیکن وہ صرف  گولیاں کھاتے رہے ،لاشیںگرتی رہیں اور صبر کا پہاڑ بلند سے بلند تر ہوتا گیا۔راولپنڈی کے کارکن بھی کچھ مختلف نہ تھے مگر شاید لاہور واقعہ کا اثر تھا کہ عین اس وقت سجدے میں گر گئے جب وقت قیام آیا لیکن اگر وہ ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تو شاید کبھی ایئرپورٹ نہ پہنچ پاتے ،یہ بھی کہانی اب تک سمجھ سے بالا ہے کہ جب ایک عام پردیسی کی واپسی پر اسکے بیس تیس پچاس رشتہ دار اسے لینے ایئرپورٹ  آجاتے ہیں تو ایک اچھی خاصی پھلتی پھولتی پارٹی کے قائد کو اگر وطن واپسی پر چند ہزار افراد استقبال کے لیے آگئے تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑی تھی؟ بجا کہ عوامی تحریک کے قائد کے لیے کوئی خطرہ موجود تھا مگر یہ خطرہ تو ان کی رہائش
 گاہ اور ان کے سیکریٹریٹ میں بھی ہے جہاں سے حکومت  نے خود پولیس کے خونی آپریشن کے ذریعے تمام حفاظتی رکاوٹیں ہٹا دی  ہیں۔شاید قادری صاحب کی حفاظت میڈیا پر عوام کے پیسوں سے کروڑوں روپے کے اشتہار دینے سے بہتر ہوسکتی تھی اور یہ حفاظتی بیرئر تو بس ایویں تھے ۔دودھ پیتا کوئی بچہ بھی اتنا جان سکتا ہے کہ اسلام آباد راولپنڈی میں شہریوں کو سیکورٹی کے نام پر محصور کرنے کا مقصد کیا تھا مگر اس ملک میں سب بکتا ہے ۔ایک بات طے ہے کہ قادری صاحب نے اگر واقعی انقلاب لانا ہے تو انہیں چومکھی لڑائی لڑنی پڑے گی۔دشمنوں کے ساتھ حال ہی میں بنے دوستوں پر بھی نظر رکھنا ہوگی ،یہ جس کے ہوتے ہیں اسکا کوئی اور کم ہی ہوتا ہے،انہیں سوچنا ہوگا کہ عدالت کے بعد انہیں ٴٴوہٴٴ بھی مایوس کرچکے ہیں جنہیں قبلہ تین مختلف مواقوں پر بانگ دَھُل سیکورٹی کے لیے  پکار تے رہے ،پہلی مرتبہ لانگ مارچ کی سیکورٹی کے لیے ،دوسری بار ایئرپورٹ پر حفاظث کے لیے اور تیسری دفعہ  لاہور میں جہاز کے اندر بیٹھے ہوئے،قادری صاحب کو سوچنا ہوگا کہ ان کی غیر مشروط حمایت و مدد پر ان کو کیا صلہ مل رہا ہے ؟

No comments:

Post a Comment